– تھیلیس کے سائنسی و ریاضی کارنامے (Thales)
تھیلیس کی پیدائش تقریباً 624BC میں ہوتی ہے اور تقریباً 545BC میں اس کی وفات ہوجاتی ہے۔
تاریخ میں شاید سب سے پہلے فلاسفر کا نام تھیلیس ہے۔
اس کا یہ کہنا تھا کہ "Everything is full of life"یعنی ہر چیز میں زندگی پائی جاتی ہے۔ شائد یہ خیال اسے اسلئے آیا کہ جب اس نے مٹی کو دیکھا، اس میں سے اسے نکلتے ہوئے پھول نظر آئے، درخت نظر آئے، گھاس نظر آئے، چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے (insects) نظر آئے۔ اس کا یہ تصور تھا کہ ہر چیز مٹی سے نکلتی ہیں اور مٹی میں ہی چلی جاتی ہیں۔
آج اگر ہم جدید سائنس کی اعتبار سے دیکھے تو ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہر چیز کے اندر زندگی واقعی موجود ہے، مطلب یہ کہ ہر جگہ آپ کو کئی نہ کئی اور کوئی نہ کوئی چھوٹے چھوٹے اور خوردبینی جاندار ملیں گے، جیسے اگر ہم چھوٹے چھوٹے بیکٹیریا (Bacteria) اور وائرس (Virus) کو دیکھے تو اس میں بھی زندگی پائی جاتی ہے۔
تھیلیس ایک قسم کا نیچرل فلاسفر تھا اور اگر ہم سائنس کی نگاہ سے دیکھے تو شاید تھیلیس کو ہم پہلا سائنسدان بھی کہہ سکتے ہیں۔
اس نے اپنے زمانے میں Miletus کے لوگوں کو حیران و پریشان کردیا تھا۔ اس نے پہلی سورج گرہن کی پیشنگوئی کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ فلاں تاریخ کو سورج کے سامنے چاند آئے گا واقعی اسی تاریخ کو سورج کے سامنے چاند آگیا۔
– تھیلیس بحیثیت ایک ریاضی دان
تھیلیس کو ریاضی کا بھی شوق تھا، اس کو حساب کا بہت شوق تھا اور اس نے کئی ایسے دریافت کیں جو کہ واقعی سچی ثابت ہوئی۔
تھیلیس شاید وہ پہلا فرد تھا کہ جس نے diameter کا تصور دیا کہ وہ لائن جو ایک دائرے (Circle) کو تقسیم کرکے مرکز سے گرتی ہے اس لائن کو diameter کہتے ہیں۔
مزید جب اس نے اس کے اندر ایک مثلث (Triangle) کھینچا جو کہ اس Circle کے Circumference کو touch کرتا تھا جس کی ایک سائیڈ اس کی diameter تھی یعنی اس نے یہ کہا کہ اگر ہم دائرے کے اندر diameter پر ایک مثلث (Triangle) بنائے اور پھر اس مثلث کو چاہے جس طرح کھینچے اس کے diameter کے مخالف (opposite) جو زاویہ (angle) بنے گا وہ ہمیشہ °90 کا ہوگا اور پھر یہ بھی ثابت کیا کہ اگر دو مثلث (Triangles) ہیں اور دونوں رائت اینگل ٹرائی اینگلز (Right angle triangles) ہیں اور اگر ان کی ایک سائیڈ (side) برابر ہے تو پھر اس کا مطلب ہوگا کہ ان دونوں مثلث (Triangles) کا Area بھی برابر ہوگا۔
– تھیلیس تھیرم (Thales Theorem)
A
/\
/ \
_____D /____ \E______
/ \
______B /_________\C_____
/ \
/ \
پھر تھیلیس نے وہ تھیرم پیش کیا جو کہ آج بھی مثلثیات یعنی Trigonometry کی بنیاد ہے جس کو تھیلیس تھیرم کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ گر دو parallel lines ہو اور وہ دو parallel lines مزید دو لکیر (Lines) intersect کر رہی ہیں یعنی وہ parallel lines اور مزید دو لکیر ایک دوسرے کو کاٹ رہی ہو جس طرح سے آپ Figure میں دیکھ سکتے ہو اور یہ نقاط (Points) یعنی A،B،C،D،E،F بن رہے ہو تو پھر جو مخصوص فاصلے (distances) ہیں وہ مخصوص انداز میں برابر ہونگے۔ یعنی؛
AD/AB = AE/AC = DE/BC
– پرامڈ کی اونچائی (Height of Pyramid)
تھیلیس کے اس تھیرم سے ہم کسی بھی مینار کے اونچائی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ تھیلیس نے کہا کہ وہ مصر کے پرامڈ کے اونچائی کا اندازہ لگائے گا۔
سب سے پہلے اس نے اپنے اونچائی (Height) کو ناپ لیا، فرض کرلے وہ 6 فٹ کا تھا اور پھر دھوپ میں کھڑے ہوکر اس نے اس وقت تک انتظار کیا کہ جب اس کا اپنا سایہ 6 فٹ کا ہوگیا اور عین اسی وقت اس نے پراماڈ کے سائے کی length ناپی اور اس کو یہ پتہ چل گیا کہ جو سائے کی لمبائی کی پیمائش ہے وہی اس پرامڈ کی اونچائی ہے۔
– انسان سوچتا کیسے ہے ؟
ایک انتہائی اہم سوال جس پر ہر فلاسفر نے لکھا ہے وہ یہ کہ انسان سوچتا کیسے ہے، انسان حرکت کیسے کرتا ہے اور اپنے فیصلے خود کیسے کرتا ہے۔
تھیلیس کا خیال تھا کہ ہر وہ چیز جو حرکت کرتی ہے اور اپنے فیصلے خود کرتی ہے اس کے اندر در حقیقت روح ہے۔ انسان چونکہ اپنا فیصلہ خود کرتا ہے تو انسان کے اندر بھی روح ہے۔ تھیلیس کا یہ بھی خیال تھا کہ جانوروں کے اندر بھی روح ضرور ہوگا مزید یہ کہ جو مقناطیس خود سے ہلنے کی صلاحیت رکھتی ہے اپنی مقناطیسیت کی وجہ سے، لہذا مقناطیس کے اندر بھی روح ہے۔
یعنی وہ تمام چیزیں جو خود سے ہل سکتی ہیں اس میں دراصل ایک روح پائی جاتی ہے۔
– مونزم (Monism)
تھیلیس کا شاید سب سے اہم تصور یہ تھا کہ جس کا انسانی سوچ پر بہت بڑا اثر ہوا وہ یہ کہ تمام چیزیں جو ہمیں نظر آتی ہیں وہ ایک ہی چیز کے بنے ہیں، یعنی ایک ہی چیز مختلف شکلیں اختیار کر لیتی ہیں۔ تھیلیس کا خیال تھا کہ وہ چیز پانی ہے جو مختلف شکلیں اختیار کر لیتی ہیں، کبھی انسان، کبھی پہاڑ، پتھر، کھبی درخت اور کھبی بادل وغیرہ۔
یعنی ہر چیز جو دنیا کے اندر جو ہمیں نظر آتی ہیں وہ تمام چیزیں درحقیقت صرف اور صرف پانی (Water) کے مختلف شکلیں ہیں۔
یہ تصور کہ دنیا کی ہر ایک چیز ایک مادے سے بنی ہے اس کو Monism کہتے ہیں اور اس طرح کے سوچ رکھنے والے کو Monist کہا جاتا ہے۔ Monism اور Dualism کی بحث افلاطون کے دور سے شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔
حتٰی جدید سائنسی دنیا میں بھی اس تصور یعنی مونزم پہ بڑا مباحثہ ہوتا ہے۔
– زلزلے کی وجہ دیوتاؤں کی ناراضگی
یونان کے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ جب دیوتائیں ناراض ہو جاتی ہیں تو اس کے نتیجے میں زلزلے آتے ہیں۔
تھیلیس وہ پہلا انسان تھا کہ جس نے کہا کہ زلزلہ دیوتاؤں کی ناراضگی کی وجہ سے نہیں آتا، بلکہ تھیلیس نے کہا کہ دراصل دنیا کا زمینی حصہ پانی پر تیر رہا ہے اور جب پانی ہلتا ہے تو بڑے بڑے لہرے پیدا ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے زلزلے آتے ہیں۔
بہرحال تھیلیس پہلا انسان تھا کہ جس نے فلسفے کی بنیاد رکھی بلکہ صرف فلسفے کے نہیں بلکہ سائنس کی بھی بنیاد رکھی۔