بحیرۂ مردار میں کوئی چیز ڈوبتی کیوں نہیں؟

 بحیرۂ مردار میں کوئی چیز ڈوبتی کیوں نہیں؟


بحیرۂ مردار Dead sea                  

 وہ سمندر جس میں انسان نہیں ڈوبتا

   بحر مردار اردن، فلسطین اور اسرائیل کے درمیان واقع ایک سمندر ہے۔جسکو اگر جھیل بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔کیونکہ اس سمندر میں بارش اور آس پاس کا پانی آتا ہے۔ اور چونکہ یہ ایک بند مقام ہے تو اس کا پانی کہی نہیں جاتا۔ بلکہ بخارات کی صورت اڑ جاتا ہے۔یہ سطح سمندر سے 430 اعشاریہ پانچ میٹر (1412 فٹ) نیچے ہے اور پانی میں نمک کی کثافت کے حوالے سے دنیا کا سب سے گہرا مقام بھی ہے یعنی 304 میٹر (997 فٹ) گہرا۔ یہاں پانی میں نمکینیت یا شوریت 34 اعشاریہ دو فیصد ہے اور یہی چیز اسے دنیا میں نمکین پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ بناتی ہے۔

بحر مردار کا پانی اتنا زیادہ نمکین ہوچکا ہے۔کہ اس میں کسی جاندار جیسے مچھلی یا پودے زندہ نہیں رہ سکتے۔ البتہ کچھ بیکٹریا پائے جاتے ہیں۔وہ بیکٹریا جو ہر طرح کے ماحول میں رہ سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے اسے بحرِ مردار کہتے ہیں یعنی مری ہوئی چیزوں کا سمندر یا وہ سمندر جہاں کوئی چیز زندہ نہیں رہ سکتی.

 بحر مردار میں عام کھانے کے نمک کے علاوہ میگنیشیم کلورائیڈ،پوٹاشیم، کیلشیم اور میگنیشیم برونائیڈ کی آمیزش ہے۔ان نمکیات کی آمیزش کی وجہ سے یہ پانی ایک ایسا محلول بن گیا ہے جو گاڑھا ہے، اس لئے اس میں ڈوبنا ممکن نہیں۔

پانی میں نمک کی مقدار کی وجہ سے پانی کا وزن ذیادہ ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں انسانی وزن کم جسکی وجہ سے انسان اسکے اوپر تیرتے ہے اور ڈوبتے نہیں۔

پانی میں چیزوں کے نہ ڈوبنے کے لئےارشمیدس کے قانوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

بحر مردار کا ذکر بائبل میں بھی موجود ہے۔ جس میں اس سمندر کو بند سمندر پکارا گیا ہے۔جبکہ قدیم رومن میں اسکو سالٹ سی کا نام دیا گیا ہے۔انہوں نے نمک کی روک تھام کے لئے یہاں باقائدہ پہرے لگائے تھے۔جب کہ نمک کو بطور اجرت دینے کا ذکر بھی موجود ہے۔

         

بحرمردار کے بارے میں یہ بات کافی مشہور ہے۔ کہ اس سمندر کے اوپر پرندے اسلئے نہیں اڑ پاتے کہ اس سمندر سے زہریلی ہوا اڑتی ہے۔ یہ بات درست نہیں۔ بحر مردار میں چونکہ پرندوں کے لئے حوراک نہیں پائی جاتی تو اسلئے یہاں پرندے نہیں آتے۔

                    

بحر مردار ایک سیاحتی مقام ہے۔ اور بحر مردار کو لوگوں کی کثیر تعداد دیکھنے آتی ہے۔جب کہ کچھ لوگوں کے مطابق اس کے پانی سے بیماریاں دور ہوتی ہے۔اوروہ باقائدہ اس پانی میں نہاتے ہیں۔اور اجکل اسکے کناروں پر کئی کارخانے بھی بن چکے ہیں۔

Previous Post Next Post